Thursday, June 17, 2010

گوادر ( پ ر ) سمندری طوفا ن پھٹ سے متاثرہ علاقوں میں بلو چ کمکار کی سر گرمیاں جاری ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں تین سومتاثرہ گھرانوں کو راشن اور چٹائی فراہم کردیے گئے ہیں دیگر فلاحی اداروں کی معاونت سے شامیانے بھی تقسیم کیے گئے ہیں ‘ پشکان اور جیمڑی میں متاثرین کو تعمیراتی کاموں میں مدد فراہم کر نے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جارہیہے ۔ اس سلسلے میں بلوچ کمکار کے ریلیف آپریشنل انچارج یونس انور نے اخبارات کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ کمکار اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے متاثرین کی ضرورت کے مطابق ان کو مددفراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ہمارا مقصد نمائشی او ر مہم جویانہ انداز میں امدادی سر گرمی کر کے محض روحانی تسکین یا سیاسی مفادات حاصل کرنا نہیں بلکہ متاثرین کو حقیقی معنوں میں امداد فراہم کرنا ہے ۔امدادتقسیم اور وصول کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھارہی ہیں ۔ بلوچ کمکارسائنسی طریقے کار کے مطابق متاثرہ علاقو ں میں امدادی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ سروے بھی کررہی ہے اس لیے ہمارے کمکارمتاثرین کی ضرورتوں کو کسی بھی دوسری تنظیم سے زیادہ جانتے ہیں ۔طوفان نےبڑی تباہی مچائی ہے سر کار نے چشم پوشی کر کے سارا بوجھ سماجی اداروںپر ڈالا ہے کوئی بھی ادارہ تمام متاثرینکے مکمل نقصانا ت کا ازالہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔لوگوں کو اب خوراک اور صحت کی سہولیات سے زیادہ سر چھپانے کے لیے چھت چاہئے بلوچ کمکار کو ملنے والی امداد کافی نہیں مخیر حضرات مدد کریں تو زیادہ بہتر اور پائیدار طریقے سے مستقل بنیادوں پر لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے ۔ناکافی وسائل کی وجہ سے بلوچ کمکار لوگوں کو محض پردہ کے لیے پلاسٹک کے شیٹس اور چٹائی فراہم کر نے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اگر مزید وسائل حاصل ہوں تو بے گھر لوگوں کی مستقل بحالی کا بندوبست بھی ہوسکتاہے ۔بلوچستان میں ہم خیال تنظیموں کی معاونت جو کیمپس لگائے گئے ہیں وہاں سے حاصل کی جانے والے نقد امدادی رقوم اگر آپریشنل ہیڈ کوارٹر کے منصوبے کے عین مطابق خر چ ہوں تو اہداف سے قریب تر ہوسکتے ہیں ورنہ کم وسائل غیر ضروری سر گرمیوں میں خرچ کرنے کی وجہ سے ضائع ہوسکتے ہیں ۔ابتدائی طور پر تین سو متاثرہ گھرانوں میں تقسیم کیے جانے والے امداد گوادر میں 180متاثرہ خاندان ‘کپر کلانچ میں100 اور سر بندن میں35متاثرہ گھرانوں میں تقسیم کیے گئے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment